شملہ معاہدہ
شملہ معاہدہ
ذوالفقار علی بھٹوؒ کی
بہت بڑی سفارتی فتح تھی
جناب ذوالفقار علی بھٹوؒ کے عظیم کارناموں میں سے ایک بہت بڑا کارنامہ شملہ معاہدہ تھا جس میں انہوں نے ایک تاریخ ساز کامیابی حاصل کی تھی اور میدان جنگ میں ہاری ہوئی بازی مذاکرات کی میز پر جیت لی تھی۔۔!
جب ہاری ہوئی بازی جیتی
پاکستان ، میدان جنگ میں بری طرح سے پٹ چکا تھا ، مشرقی پاکستان چھن چکا تھا ، نوے ہزار سے زائد جنگی قیدی تھے اور مغربی پاکستان کا آٹھ نو ہزار مربع کلو میٹر کا علاقہ بھی دشمن کے قبضہ میں تھا۔
پاکستان ، سیاسی طور پر دنیا بھر میں یک و تنہا تھا جبکہ بھارت کو کھلی جارحیت کے باوجود بنگالیوں کا نجات دہندہ سمجھا جار رہا تھا۔ ایسے میں وہ جو چاہتا ، منوا سکتا تھا لیکن مسلمانوں سے ہزار سالہ تاریخ کا بدلہ لینے والی ہندوؤں کی بہادری کی علامت "درگا دیوی" کہلانے والی وزیر اعظم شرمتی اندرا گاندھی کا سامنا فخر پاکستان جناب ذوالفقار علی بھٹوؒ جیسے گوہر نایاب سے تھا۔
تاریخ دان آج بھی حیران ہیں کہ بھٹو نے اندرا گاندھی پر کیا جادو کردیا تھا کہ میدان جنگ میں پاکستان سے ہتھیار ڈلوانے والی اس آہنی عورت نے بھٹو کی سفارتکاری کے آگے ہتھیار ڈال دیے تھے۔۔؟
ذوالفقار علی بھٹوؒ نے قومی مفادادت پر کوئی حرف آئے بغیر ایک با عزت اور باوقار معاہدہ کیا ، مقبوضہ علاقے واپس لے لئے اور جنگی قیدیوں کی رہائی کے لیے پیش رفت کی تھی۔ پاکستانی فوجی افسران پر جنگی جرائم کے تحت مقدمہ بھی نہیں چلنے دیا تھا اور کشمیر پر بھی کسی قسم کی کوئی سودا بازی نہیں کی تھی۔ جمہوری روایات کا کمال تھا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار منتخب قومی اسمبلی سے اس معاہدے کی توثیق بھی کروائی گئی تھی۔۔!
شملہ معاہدہ کے نکات
2 جولائی 1972ء کو بھارت کی وزیراعظم اندرا گاندھی اور پاکستان کے صدر ذوالفقارعلی بھٹوؒ کھے مابین ہونے والے پاک بھارت شملہ معاہدے کے نکات مندرجہ ذیل ہیں:
"بھارت اور پاکستان کی حکومتیں عہد کرتی ہیں کہ دونوں ممالک ان تنازعات اور اختلافات کو ختم کریں گے جو اب تک باہمی تعلقات کو نقصان پہنچاتے رہے ہیں۔ دونوں ممالک دوستانہ مراسم ، باہمی اعتماد کے فروغ اور پائیدار امن کے قیام کے لیے کام کریں گے۔ نیز دونوں ممالک اپنے وسائل اور توانائیاں اپنے عوام کی بہتر فلاح و بہبود کے لیے وقف کریں گے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے دونوں حکومتوں نے مندرجہ ذیل امور پر اتفاق کیا ہے:
- اقوام متحدہ کے رہنما اصولوں اور مقاصد کے تحت دونوں ممالک کے درمیان تعلقات استوار ہوں گے۔
- دونوں ممالک اپنے باہمی اختلافات کو پرامن طریقے سے دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے لیے پرعزم ہیں یا کسی دوسرے پرامن طریقے سے جس پر ان کے درمیان باہمی اتفاق ہو۔ دونوں ممالک کے درمیان کسی بھی مسئلے کے حتمی تصفیے تک کوئی بھی فریق یکطرفہ طور پر صورت حال کو تبدیل نہیں کرے گا اور دونوں ممالک ، امن اور ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لیے نقصان دہ کارروائیوں میں ملوث تنظیموں کی مدد یا حوصلہ افزائی کو روکیں گے۔
- مفاہمت ، اچھی ہمسائیگی اور پائیدار امن کے لیے دونوں ممالک ایک دوسرے کی علاقائی سالمیت اور خودمختاری کے احترام اور ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کے پرامن بقائے باہمی کا عہد کرتے ہیں۔ نیز بنیادی مسائل اور تنازعات کے اسباب جنہوں نے گزشتہ 25 برسوں سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو بگاڑ پیدا کیا ہے ، ان کو پرامن طریقے سے حل کیا جائے گا۔
- دونوں ممالک ، ہمیشہ ایک دوسرے کی قومی یکجہتی ، علاقائی سالمیت ، سیاسی آزادی اور خودمختاری کا احترام کریں گے۔
- اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق ، ایک دوسرے کی علاقائی سالمیت یا آزادی کے خلاف دھمکیوں اور طاقت کے استعمال سے پرہیز کریں گے۔
- دونوں حکومتیں ایک دوسرے کے خلاف مخالفانہ پروپیگنڈے کو روکنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کریں گی۔ دونوں ممالک ایسی معلومات کی ترسیل کی حوصلہ افزائی کریں گے جس سے ان کے درمیان دوستانہ تعلقات کو فروغ ملے گا۔"
"دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بحالی کے لیے اس بات پر اتفاق کیا گیا ہے کہ:
- مواصلات ، ڈاک ، ٹیلی گرافک ، سرحدی چوکیوں سمیت ، سمندری ، زمینی اور فضائی رابطوں کو بحال کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔
- دونوں ممالک کے شہریوں کے لیے سفری سہولیات کو فروغ دینے کے لیے مناسب اقدامات کیے جائیں گے۔
- جہاں تک ممکن ہو سکے اقتصادی اور تجارتی تعاون کو دوبارہ شروع کیا جائے گا۔
- سائنس اور ثقافت کے شعبوں میں بھی تعاون کو فروغ دیا جائے گا۔
- اس سلسلے میں دونوں ممالک کے وفود گاہے بگاہے ملاقات کر کے ضروری تفصیلات طے کریں گے۔"
"پائیدار امن کے قیام کے عمل کو شروع کرنے کے لیے دونوں حکومتیں متفق ہیں کہ:
- بھارتی اور پاکستانی افواج کو مقبوضہ علاقوں سے واپس بین الاقوامی سرحدوں پر بلا لیا جائے گا۔
- جموں اور کشمیر میں 17 دسمبر 1971 کی جنگ بندی کے نتیجے میں لائن آف کنٹرول کا بلا تعصب احترام کیا جائے گا۔ کوئی بھی فریق باہمی اختلافات اور قانونی تشریحات سے قطع نظر یکطرفہ طور پر اسے تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کرے گا۔ فریقین ، اس لائن کی خلاف ورزی میں دھمکی یا طاقت کے استعمال سے باز رہنے کا عہد کرتے ہیں۔
- مقبوضہ علاقوں سے فوجوں کی واپسی اس معاہدے کے نافذ العمل ہونے کے 30 دنوں کے اندر مکمل ہو جائے گی۔
- یہ معاہدہ دونوں ممالک کی طرف سے متعلقہ آئینی طریقہ کار کے مطابق توثیق سے مشروط ہو گا اور اس تاریخ سے نافذ العمل ہو گا جس تاریخ کو توثیق کے کاغذات کا تبادلہ ہو گا۔
- دونوں حکومتیں اس بات پر متفق ہیں کہ ان کے متعلقہ سربراہان مستقبل میں باہمی طور پر مناسب وقت پر دوبارہ ملاقات کریں گے اور اس دوران فریقین کے نمائندے مل کر پائیدار امن کے قیام اور تعلقات کو معمول پر لانے کے طریقوں اور انتظامات ، جنگی قیدیوں اور سویلین قیدیوں کی وطن واپسی ، جموں و کشمیر کا حتمی حل اور سفارتی تعلقات کی بحالی پر مزید بات چیت کریں گے۔"